فلسفے کی بنیادی شاخ میٹافزکس ہے۔ میٹا فزکس کی تین اور شاخیں ہوتی ہیں۔ آنٹولوجی، کوسمولوجی اور ٹیلیولوجی۔
کوسمولوجی حقائق کی ترتیب سے بحث کرتی ہے۔ یعنی مختلف حقیقتوں کی ترتیب کیا ہے اور کس کی کیا علت ہے۔
خدا کے وجود ہے کے لئے کاسمولوجیکل آرگیومنٹ ایک بہت پرانی دلیل تھی جو کہ پرانے یونانی فلسفہ میں بھی پائی جاتی تھی۔ یہ دلیل ایک شکل میں نہیں رہی۔ مختلف ادوار میں اس کو غلط بھی ثابت کیا جاتا رہا۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ دلیل آج بھی ٹھوس ہے۔
دلیل کچھ یوں ہے۔
ہر وجود کی کوئی نہ کوئی وجہ ہونی چاہئے۔ چونکہ یہ کائنات ہے اور کائنات خود اپنے آپ کو وجود نہیں دے سکتی اس لئے لازمی طور پر کوئی نہ کوئی ہے جس نے اس کائنات کو وجود بخشا۔
یہ بہت ہی سادہ سی بات ہے۔
اس پر یہ اعتراضات ہوسکتے ہیں
· اگر ہر وجود کی کوئی نہ کوئی علت ہے تو پھر خدا کی کیا علت ہے؟
· دوسرا اعتراض یہ ہے کیا ضروری ہے ہر وجود کی کوئی علت ہو؟
ان دونوں اعتراضات کے جوابات کچھ یوں ہیں۔
کائنات کے بارے میں ہمارا مشاہدہ ہے یہ ہے کہ یہ رو بہ تنزل ہے۔ چیزیں پرانی ہوجاتی ہیں۔ قوتیں ختم ہوجاتی ہیں۔ انسان بوڑھا ہوجاتا ہے۔ اس لئے لازمی ہے کہ کائنات کا کوئی نکتہ آغاز ہوگا جہاں سے یہ دھیرے دھیرے ڈھل کر اس حالت میں پہونچی ہے۔ اس مستقل تنزلی کی بنیاد پر یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ کائنات کا کوئی نکتہ آغاز ضرور ہے۔ جس چیز کا نکتہ آغاز ہے تو لازمی طور پر اس کی علت ہونی ہی چاہئے۔ اگر کسی کا نکتہ آغاز ہی نہ ہو اس کی علت ہونا ضروی نہیں۔چونکہ کائنات کے بارے میں ہمیں معلوم ہے کہ اس کا نکتہ آغاز ہے اس لئے اس کی علت ہونی لازمی ہے۔ چونکہ خدا کے بارے میں ایسے کسی دعوے کی کوئی بنیاد ہی نہیں ہے اس لئے خدا کی علت کی جسجتو بے کار ہے۔
کچھ یونانی فلاسفہ کا یہ دعوی تھا کہ اجرام سماوی جیسے سورج اور تارے مستقل ایک ہی کیفیت میں ہیں اور صدیوں سے ان کی گرمی یا روشنی میں کسی قسم کی کمی محسوس نہیں کی گئی۔ اس لئے یہ قدیم ہیں اور اسی بنا پر خدا کے وجود ثابت نہیں ہوتا۔
امام غزالی نے یونانی فلاسفہ کے دعوے کی تردید یوں کی کہ ان کے بقول یہ اجرام سماوی اتنی بڑی چیزیں ہیں کہ اگر ان کی روشنی یا گرمی میں کوئی کمی بھی ہورہی ہو تو وہ اتنے دھیرے دھیرے ہوگی کہ صدیوں میں معلوم نہیں ہوگا۔
خدا کی علت کے سوال کے جواب میں ایک اور نکتہ بھی ہے۔
چلئے فرض کرلیتے ہیں کہ کائنات کی علت زیڈ ہے۔
تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ زیڈ کی علت کیا ہے۔ فرض کر لیتے ہیں کہ زیڈ کی علت وائی ہے۔
تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ وائی کی علت کیا ہے۔ فرض کر لیتے ہیں کہ وائی کی علت ایکس ہے۔
تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایکس کی علت کیا ہے۔ فرض کر لیتے ہیں کہ ایکس کی علت ڈبلیو ہے۔
اس طرح آپ مانتے چلے جائیں تو یہ ایک لامحدود سیریز ہوجاتی ہے۔ اوراگر یہ سیزیز سچ مچ لامحدود ہے تو پھر کائنات کا وجود ہی نہیں ہونا چاہئے تھا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہیں اور آپ بھی ہیں۔
تو لامحالہ ماننا پڑے گا کہ کوئی علت اولی ہے جو بذات خود موجود ہے۔ اور کائنات کے بارے میں یہ بات محقق ہے کہ وہ علت اولی کائنات نہیں ہے۔یہی علت اولی خدا ہے۔
آج کے دور میں کچھ ایسی دریافتیں ہوئیں جن کی بنیاد پر یہ آرگیومنٹ مزید مستحکم ہوگیا۔
اینٹروپی کی دریافت کی وجہ سے یہ بات تمام کے نزدیک قابل قبول ہوگئی ہے کہ کائنات متغیر اور رو بہ زوال ہے۔ یعنی کائنات میں قوت موجود ہے لیکن ناقابل استعمال ہوتی جارہی ہے اور بلینیوں سال کے بعد کائنات کی تمام قوتیں غیر مفید ہوجائیں گی اور کائنات ایک فرسودہ اور یونی فارم شکل اختیار کرے گی جس میں قوت کا تنوع نہیں ہوگا۔ بغیر تنوع کے زندگی اور حرکت ختم ہوجاتی ہے۔اس کی وضاحت کے لئے یہ لنک ملاحظہ کیجئے:
http://en.wikipedia.org/wiki/Heat_death_of_the_universe
کائنات کے وجود کے بارے میں سائنسی حلقوں میں ایک ہی تھیوری اب قابل قبول ہے اور تمام تجربات اس کی تصدیق کرتے جارہے ہیں اور وہ تھیوری بگ بینگ تھیوری کہلاتی ہے۔
بگ بینگ تھیوری بھی اور اینٹروپی کا نظریہ بھی ایک بات کی تصدیق کرتا ہے اور وہ یہ کہ کائنات ازلی نہیں ہے۔
ایک چیز حادث ہے تو لازماً اس کی علت ہونی چاہئے۔ ایک چیز قدیم ہے اور جس کی کوئی ابتداء نہیں، ممکن ہے کہ اس کی علت نہ ہو۔
تو جناب یہان پر بات صرف علت کی نہیں بلکہ علت اولی کی ہے۔ خدا کو ثابت کرنے کے لئے علت کی جو دلیل دی جاتی ہے وہ صرف علت کے نہیں بلکہ علت اولی حوالے سے ہے۔
تو جناب یہاں پر یہ بھی واضح ہوگیا ہوگا کہ کوسمولوجیکل آرگیمونٹ، علت و معلولی کی دلیل، بگ بینگ تھیوری اور انٹروپی کی باتیں ایک ہی چیز کے حوالے ہورہی ہے۔
ملحدین کی لاجیکل تردید میں قرآن کی ایک عظیم آیت
قرآن نے ملحدین کے خلاف ایک بہت مضبوط اور لاجیکل دلیل پیش کی ہے یہ پوچھ کر کہ:
أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ﴿٣٥﴾أَمْ خَلَقُوا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ۚبَل لَّا يُوقِنُونَ﴿٣٦﴾الطور
ترجمہ: کیا یہ کسی خالق کے بغیر خود پیدا ہو گئے ہیں؟ یا یہ خود اپنے خالق ہیں؟یا زمین اور آسمانوں کو اِنہوں نے پیدا کیا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ یقین نہیں رکھتے
قرآن کی ان دو آیات میں دو بہت اچھے سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ پہلا یہ کہ کیا یہ (کافر و ملحد) لوگ عدم سے وجود پا گئے ہیں؟ اور دوسرا یہ کہ کیا انہوں نے خود کو اور اپنے ارد گرد ہر چیز کو خود ہی پیدا کر لیا ہے؟
یہ دونوں سوالات ملحدین کی منطقی نامعقولیت کو ظاہر کرنے کے لئے ہیں۔ ملحدین کی دنیا وہ ہے، جہاں کوئی تخلیق کار نہیں، کوئی خدا نہیں، لہٰذا خدا نے تو ہمیں بنایا نہیں۔ اگر یہ بات درست ہے کہ کوئی ہمیں تخلیق کرنے والا نہیں تو اس انکار کے بعد دو ہی راستے ہیں کہ یا تو یہ مانئے کہ ہم عدم سے خود ہی وجود پا گئے ہیں۔ یعنی پہلے کچھ نہیں تھا اور ہم “کچھ نہیں” سے تخلیق ہو کر اچانک ظاہر ہو گئے۔۔۔اور یا یہ کہ ہم نے ہی اس کائنات کو اور خود کو تخلیق کر لیا ہے؟
ملحدین کا “عقیدہ” یہ ہے کہ ہماری اور ہمارے ساتھ کائنات کی تخلیق بس تکے سے، بغیر کسی وجہ کے، ہو گئی اور خودبخود ہی ہو گئی۔ یہ انتہائی نامعقولیت پر مبنی بات ہے۔ بلکہ یہ کہنا عین انصاف پر مبنی ہوگا کہ خدا کے وجود پر یقین رکھنے کے لئے ہمیں جس مقدار میں “عقیدہ” کی ضرورت ہے، اس سے کہیں زیادہ ملحدین کو اس بغیر خدا والی کائنات پر ایمان لانے کے لئے “عقیدہ” بلکہ اندھے عقیدے کی ضرورت ہے۔
یہ بات توسائنسی طور پر بھی طے پا چکی ہے کہ ہماری کائنات کی ابتدا ہے۔ (مختصرا اس طرح کہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے، کہکشائیں ایک دوسرے سے دور جا رہی ہیں اور سائنسدانوں نے ان کی ولاسٹی اور موجودہ پوزیشن کو جانچ کر ایک فیصد ایرر کے ساتھ یہ بھی طے کر دیا ہے کہ کائنات کی ابتدا کب ہوئی اور پھر تھرمو ڈائنامکس کا دوسرا قانون)۔ گویا ہماری کائنات کی ابتدا کا کوئی نہ کوئی وقت تھا۔ لہٰذا اگر ملحدین کے نظریہ پر پرکھیں تو ہمیں واقعتا اس بات پر “اندھا ایمان” لانا پڑے گا کہ کائنات “عدم” سے وجود میں آگئی۔ اور “عدم سے وجود” پانے کے عقیدہ کو عقلا محال “ثابت” کرنے کی بہرحال کوئی ضرورت نہیں۔کہ یہ خود اپنے آپ ہی اپنی نامعقولیت کا ثبوت ہے۔
بہرحال، ملحدین کی خدا کے بغیر والی دنیا، عدم سے (بغیر کسی مقصد اور وجہ کے بس یونہی) اچانک وجود میں آئی۔ پھر واقعات کے تسلسل نے اسی کائنات میں “زمین” نامی سیارہ بنایا۔ پھر زمین کی فضا بھی زندگی کے لئے سازگار ہو گئی، پھر پانی سے ایک زندہ خلیہ نمودار ہو گیا (پانی کہاں سے آیا، اور مردہ سے زندہ کیسے نمودار ہوگیا مت پوچھئے)۔ اور پھر اس ایک خلئے سے کروڑہا اقسام کی مخلوق، چرند پرند، رینگنے والے، اڑنے والے، چلنے والے حیوانات پیدا ہوئے۔ اور ہر مخلوق نے اپنی الگ الگ شناخت بھی بہرحال برقرار رکھی جیسا کہ آج ہمیں نظر بھی آتا ہے۔ اور پھر بغیر کسی وجہ کے تکے سے ہی ایک شعوری مخلوق پیدا ہو گئی، جسے حضرت انسان کا لقب ملا۔ پھر ان سب مخلوقات میں بشمول حضرت انسان تولید کا سلسلہ بھی چل نکلا، لہٰذا اب دوبارہ اس کی ضرورت نہیں کہ پانی سے ایک خلیہ نمودار ہو اور پھر یہ خلیہ ایک طویل عرصے اور جدوجہد سے گزر کر انسان بنے۔ بلکہ انسان نے خود ہی اپنی تولید کا آسان نظام “تخلیق” کر لیا اور خود ہی اپنا “خدا ” بن گیا۔۔!
ملحدین کا بغیر خدا کے کائنات کے پیدا ہونے والا نظریہ ایسا ہی ہے کہ یہ مانا جائے کہ ایک پیدا ہونے والا بچہ بغیر ماں باپ کے، بغیر کسی لیبارٹری کے، بغیر کسی پہلے سے موجود میٹیریل کے، یونہی عدم سے اچانک وجود میں آگیا۔ اور پھر پیدا ہونے کے بعد خود ہی اپنے آپ میں سروائیو بھی کر گیا۔ اور پھر اس بچے نے خود کو مرد و عورت کے روپ میں بھی دھار لیا، تاکہ آئندہ عدم سے وجود نہ لینا پڑے، بلکہ آسان طریقے سے مزیدبچے پیدا کئے جا سکیں۔بھلا یہ عقل کی بات ہے ؟ یا یہ عقلا ممکن بھی ہے؟
کوئی مذاہب کا ماننے والا کہے کہ خدا موجود ہے کیونکہ اس کی تخلیق موجود ہے تو اسے تو یہ ملحدین نامعقول ، غیرمنطقی، عقل سے ماورا عقیدہ قرار دیں، جسے مذہب نے تھوپا ہے۔
اور کائنات کی ابتدا کے بارے میں خود انہی “عاقلوں” کے جو “عقائد” ہیں، ان کا معاملہ کچھ ایسا ہی ہے جیسے یوں کہا جائے کہ جی میری ماں نے خود اپنے آپ کو پیدا کر لیا ہے۔
سائنسی طور پر بہرحال “ثابت” یہ بھی نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی خدا ہے جس نے یہ کائنات بنائی، لیکن اس کی تردید بھی سائنسی بنیادوں پر نہیں کی جا سکتی۔ اور عقلا بھی یہ محال نہیں کہ کوئی عظیم ڈیزائنر ، کوئی عظیم انجینئر ، کوئی عظیم بائیولوجسٹ بہرحال ہے، جس نے یہ سب ڈیزائن کیا، بنایا اور پھر ہر چیز بہترین تناسب میں مقرر کر دی۔
لیکن دوسری جانب یہ کہنا کہ کائنات نے خود اپنے آپ کو پیدا کر لیا، یا “عدم” سے خود ہی یہ کائنات بن گئی، عقلا ہی محال و ناممکن امر ہے۔ جیسا کہ کسی بچے کا خود ہی پیدا ہو جانا، کسی کے کھلائے پلائے بغیر زندہ رہنا، پھر خود ہی مرد و زن میں منقسم ہو کر اپنی تولید کا نیا نظام بنا لینا، عقلا ناممکن و امر محال ہے۔
چونکہ قرآن کی ان آیات میں پوچھے گئے دونوں سوالات کے جوابات نفی میں ہی ہیں۔ تو جب تک کوئی تیسرا نظریہ پیش نہ کر دیا جائے یہ بات از خود پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ یہ کائنات خدا نے ہی تخلیق کی ہے۔
سائنس ، منطق اور فلسفے نے نظریہ الحاد کو دیوالیہ کر دیا ہے ۔ وہ خود اپنے ہی قائم کیے گئے اصولوں کے تحت خود کو رد رہا ہے ۔
وہ زندگی اور کائنات سے متعلق اہم ترین سوالات کے جوابات دینے میں ناکام ہے ۔ ان سوالات کے جوابات دینے کے لیے اسکو عالمی طور پر تسلیم شدہ اصولوں، سچائیوں اور طریقہ کار سے انحراف کرنا ہوگا لیکن ایسا کرنے سے سارا علم ہی باطل ہو جائیگا اور کوئی چیز ثابت اور متعئن نہیں کی جا سکے گی ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
۔۔۔۔۔۔۔ ” ہر وجود یا واقعے کا کوئی نہ کوئی سبب ہوتا ہے”
الحاد کا یہ اہم ترین اصول کائنات کے وجود کے معاملے میں خود الحاد کی بنیادیں ہلا دیتا ہے ۔ دو ممکنات ہیں ۔ یا کائنات لامتناہی وقت سے ہے یا ایک خاص وقت وجود میں آئی ۔ کوئی تیسری صورت ممکن نہیں ۔
اگر لامتناہی وقت سے ہے تو سائنس کے قانون کے مطابق اسکو لامتناہی وقت پہلے ہی اپنی ساری توانائی استعمال کر کے ٹھنڈا ہو جانا چاہئے تھا۔
اگر یہ کہا جائے کہ مادے اور توانائی سے بنی یہ کائنات کسی اور شکل میں لامتناہی وقت سے موجود تھی اور پھر تبدیل ہو کر موجودہ شکل اختیار کی تب اسی اصول کے مطابق لامتناہی وقت سے ہی اس تبدیلی کا سبب یا محرک موجود تھا اور یہ تبدیلی لامتناہی وقت پہلے آجانی چاہئے تھی ۔ کائنات کو پھر بھی لامتناہی وقت پہلے ٹھنڈا ہو جانا چاہئے تھا۔
سبب والے اصول کے مطابق کائنات کی موجودہ شکل ناممکن ہے ۔
ہمیں ماننا پڑے گا کہ کائنات کا کسی بھی شکل میں کوئی وجود نہیں تھا ۔ تب یہ کیسے وجود میں آئی ؟؟ الحاد اس کا جواب دینے سے قاصر ہے ۔
دوسری صورت یہی ہو سکتی ہے کہ ہم تسلیم کر لیں کہ کائنات ایک خاص وقت میں عدم سے وجود میں آئی ۔ (بگ بینگ تھیوری بھی اسی طرف اشارہ کرتی ہے)
کائنات کے وجود میں آنے کا سبب یا محرک بیرونی تھا جو اسکو عدم سے وجود میں لایا یا دوسرے لفظوں میں اسکو ” پیدا ” کیا۔
اندرونی ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ ایک چیز موجود ہی نہیں تھی تو اسکا اندرونی سبب کہاں سے آگیا جو اسکو پیدا کرے ۔۔۔!
اب ذرا یہ نقطہ زیادہ غور سے سمجھنے کا ہے کہ وہ بیرونی محرک یا سبب شعور سے عاری ہرگز نہیں ہو سکتا ۔ کیوں ۔۔۔؟
اگر وہ محرک شعور سے عاری تھا تب وہ مادے اور توانائی ہی کی کوئی اور شکل تھی اسلئے لازمً وقت بھی موجود تھا کیونکہ کوئی اورصورت ممکن نہیں ۔ شعور سے عاری سبب یا محرک عدم سے وجود نہیں بخش سکتا ۔۔اگر کر سکتا ہے تو کیسے ۔۔۔
اسلئے وقت کی موجودگی میں اسی لامتناہی وقت والے مسلئے کا سامنا کرنا ہوگا ۔
سب سے اہم پیدا کرنے کے لیے ارادہ ضروری ہے اور ارادے کے لیے شعوری لازم ۔ اسکے علاہو کونسی صورت ممکن ہے ؟
یقیناً وہ بیرونی محرک یا سبب عظیم شعور اور عظیم طاقت کا مالک ہے جس نے کائنات کی پیدائش کا ارادہ کیا اور معجزانہ انداز میں کائنات کو پیدا کیا۔
اس آخری بات کو تسلیم کرنے کے بعد ہمیں خوبخود ایک اور اہم ترین سوال کا جواب بھی مل جاتا ہے کہ ۔۔۔ ” اگر کائنات ایک دھماکے سے وجود میں آئی تو اس کے ایک معمولی ایٹم سے لے کر عظیم الشان کہکشاوؤں تک میں ایک غیر معمولی نظم اور اصول کیوں کارفرما نظر اتے ہیں۔ ۔”
اس حیران کن نظم کو الحاد نہایت ڈھٹائی سے ” اتفاق ” قرار دیتی ہے!
کائنات کو تخلیق کرنے والے اس محرک کو ہم خدا کہتے ہیں ۔ خدا کے وجود سے انکار ہمیں ایک ایسی جگہ کھڑا کرتی ہے جہاں ہمیں ہر راستہ بند ملتا ہے ۔
یہاں سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ اگر ہر شے کا خالق خدا ہے تو خدا کا خالق کون ہے؟؟ پھر اس کا خالق کون ہے اور پھر اسکا خالق کون ؟؟ یوں یہ لامتناہی خداوؤں کا ایک سلسلہ بن جاتا ہے ۔
لیکن لامتناہی خداوؤں کے وجود کا تصور ہی اسکو باطل ثابت کرنے کے لیے کافی ہے ۔ ہمیں لازمً ایک ایسے خالق کا وجود تسلیم کرنا پڑے گا جسکا خالق کوئی نہ ہو ۔ یعنی اسکو کسی نے پیدا نہ کیا ہو ۔
خالق لامتناہی نہیں تو کتنے ہیں؟؟ اس سوال کا جواب قرآن ایک مثال کے ذریعے دیتا ہے کہ اگر خدا ایک سے زیادہ ہوتے تو ان میں اختلاف ہوتا۔
یہ نہایت سادہ لیکن بہت ہی اہم نقطہ ہے ۔ اگر خالق ایک سے زائد ہیں تب ان میں اختلاف لازم ہے ۔ اگر الحاد کہے کہ کبھی کوئی اختلاف ہو ہی نہیں سکتا تب وہ ایک ہی وجود تسلیم کیا جائیگا ۔ لیکن اگر اختلاف کو تسلیم کرتے ہیں تو ۔۔۔۔۔ کونسا خدا غالب آئیگا کونسا مغلوب ہوگا نیز اس اختلاف کے بعد مخلوق کا وجود بلکہ خود خالق کا وجود کیسے باقی رہ سکے گا؟؟
تب ہمارے پاس یہی چارہ رہ جاتا ہے کہ ہم صرف ایک خدا کے وجود کو تسلیم کرلیں جو ہر شے کا خالق ہے اور جس کو کسی نے پیدا نہیں کیا نہ ہی کوئی اسکا ہمسر ہے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نظریہ ارتقاء یا ایویلوشن نے الحاد کی کمر توڑ دی ہے ۔
بنیادی طور پر یہی وہ سائنسی نظریہ ہے جس پر الحاد سب سے زیادہ انحصار کرتا ہے لیکن ہوا یہ کہ اس نظریے کو ثابت کرنے کے لیے اس پر بہت زیادہ تحقیق کی گئی جس کے نتائج نے الحاد کو بلکل ہی بے آسرا کر دیا ہے ۔
زندگی یا جاندار کیسے وجود میں آئے ؟ صرف دو صورتیں ممکن ہیں ۔
پہلی ۔۔۔ ” جاندار خوبخود وجود میں آئے ۔”
دوسری ۔۔۔۔ ” انکو تخلیق کیا گیا ۔”
کوئی تیسری صورت ممکن نہیں ۔ الحاد پہلی صورت کا قائل ہے اور اسی کو ثابت کرنے کے لیے نظریہ ارتقاء پیش کیا گیا ہے۔
اس نظریے کے مطابق زمین پر مناسب ترین ماحول بنا ( جو ابھی ثابت نہیں ہوا ) پھر مختلف کیمیکلز نے اتفاقً مناسب ترین مقدار میں ملکر ایمینو ایسڈز بنائے ۔ پھر اتفاقً یہ امینو ایسڈز ایسے تناسب سے ملے جن سے مختلف قسم کے پروٹینز بنے ۔ پھر ایک حیرت انگیز اتفاق کے تحت ان پرٹینز نے ایسے اعضاء بنائے جن سے خلیہ بن سکتا تھا اور محض تکے سے ان اعضاء نے ملکر ایک زندہ خلیہ بنا لیا۔ پھر اس خلیے نے بیرونی اثرات کے سبب اتفاق سے ہی پیچیدہ جانور بنالیے ۔
ان اتفاقات کا امکان کتنا ہے ۔ خود ماہرین ایک مثال دیتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔
۔۔ ” اگر کائنات میں موجود سارے ایٹم امینو ایسڈز میں تبدیل ہوجائیں اور انکو مطلوبہ ماحول اور اربوں سال کا وقت دیا جائے ۔ تب بھی وہ “محض اتفاق سے” کوئی ایک درمیانہ سائز کا فنکشنل پروٹین نہیں بنا سکتے ۔”۔۔۔
جبکہ ایک زندہ خلیہ ایسے بہت سے ایسے اعضاء پر مشتمل ہوتا ہے جو اس خلیے کو زندہ رکھنے کے لیے الگ الگ امور سرانجام دیتے ہیں اور وہ ہر عضو صرف اسی عضو کے لیے درکار مخصوص پروٹینز کے انتہائی درست تناسب سے ملکر بنتا ہے۔
” ایک برتن میں لوہے کے بہت سارے ٹکڑے ڈال کر انکو اربوں سال تک ہلایا جائے تو کیا ان سے اتفاقً ایک ناخن تراش بن سکتا ہے؟؟ ۔ “۔۔۔ اس اتفاق پر دنیا کا کوئی ایویلوشنسٹ یا ملحد یقین نہیں کرےگا لیکن ” خلیے ” کے معاملے میں درکار لامتناہی اور ناممکن اتفاقات پر وہ اندھا یقین رکھتے ہیں ۔
ایک خلیے نے ذاتی بقا کے بجائے اجتماعی بقا کیسے سیکھی تاکہ پیچیدہ جاندار جیسے پودے اور جانور بنائے جا سکیں ؟؟؟جس کے تحت وہ نہ صرف اس جاندار کے اندر اپنی ایک مخصوص ذمہ داری سنبھالے گا بلکہ ایک پروگرام کے تحت مرے گا بھی ؟؟؟
جبکہ نظریہ ارتقاء یا ڈارون ازم کے مطابق ۔۔۔”جاندار زندہ رہنا چاہتے ہیں اور اپنی بقا کی جنگ لڑتے ہیں “۔۔۔
سب سے بڑھ کر بے عقل ذرات یا کچھ کیمیکلز نے مستقبل کی یہ ساری منصوبہ بندی کی کیسے؟؟
ڈی این اے خلیے کے اندر پایا جانے والا ایک نہایت پیچیدہ کوڈ ہے جس میں اتنی معلومات ہوتی ہیں جو شائد انسائکلو پیڈیا یا ویکیپیڈیا میں ہوں ۔
اگر یہ کہا جائے کہ ۔۔۔ ” بہت سے بندروں کو ٹائپ رائٹر کے سامنے بیٹھا دیا گیا جنہوں نے ٹائپ رائٹرز پر کئی ارب سال تک بے تکے انداز میں ہاتھ مارنے کے بعد اتفاقً شیکسپئر کی طرح کا کوئی ڈراما تخلیق کر لیا “۔۔۔ تو اس بات کو کوئی تسلیم نہیں کرے گا بمع نظریہ ارتقاء پر یقین رکھنے والوں کے ۔۔۔۔
لیکن وہ سب اس بات پر بضد ہیں کہ خلیے کے اندر پایا جانے والا کائنات کا سب سے پیچیدہ کوڈ محض اتفاقً لکھا گیا ہے ۔۔!
نہ صرف یہ بلکہ اس نظریے کے مطابق ڈی این اے میں درج معلومات میں تابکاری جیسے بیرونی عوامل نے ایسی حادثاتی تبدیلیاں کیں جس سے نئے اور بہتر جانور وجود میں آئے ۔ اسی کو میوٹیشن کہتے ہیں ۔
مثلاً ۔۔۔ بیروانی عوامل ( تابکاری وغیرہ ) نے اتفاقً مچھلی کی ڈی این اے میں ایسی حادثاتی تبدیلیاں کیں کہ اس کو پانی میں رہنے کے لیے گلپہڑے ، پر اور چھلکے مل گئے ؟
مچھر کے ڈی این اے کو ایسے متاثر کیا کہ اسکو اتفاقً خون پینے کے لیے پائپ اور آرے کے ساتھ ایسا کیمکل بنانے کا میکنزم بھی مل گیا جو خون کو جمنے نہیں دیتا ۔۔۔؟
برفانی علاقوں میں رہنے والے ریچھ کے ڈی این اے کو اتفاقً ایسے انداز میں متاثر کیا ہے کہ اس کو موٹی کھال اور بال مل گئے تاکہ وہ برف میں رہ سکے ۔۔۔؟
اونٹ کے ڈی این اے کو محض تکے سے ایسے متاثر کیا کہ اسکو پانی ذخیرہ کرنے کے لیے معدے میں ایک فالتو خانہ مل گیا اور نیچے سے نرم اور چوڑے پاؤں تاکہ صحرا میں گزارا کر سکے ۔۔۔؟
نظریہ ارتقاء یہاں بے بسی کی تصویر نظر آتا ہے اور اسکے پاس ان “اتفاقات” کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہیں رہتا ۔
نظریہ ارتقاء پیش کرنے والے ڈارون نے اپنے نظریے کے لیے سب سے زیادہ امیدیں فوسل ریکارڈ سے باندھی تھیں اور درحقیقت یہی اس نظریے کا سب سے بڑا ثبوت ہونا چاہئے تھا ۔ لیکن فوسل ریکارڈ نے اس نظریے کے تابوت میں آخری کیل ٹونک دی ہے ۔
ارتقائی اصول کے مطابق درمیانی شکل کے جانداروں کی تعداد دیگر موجود جانداروں سے سینکڑوں گنا زیادہ ہونی چاہئے اور اس طرح لازمً ان کے فوسلز بھی اسی تناسب سے سینکڑوں گنا زیادہ ملنے چاہئیں تھے ۔۔۔۔۔!
لیکن ایک حیرت ناک اور ناقابل یقین بات ہے کہ لاکھوں ملنے والے فوسلز میں سے اب تک کوئی ایک بھی ایسا فوسل نہیں ملا جس کو ناقابل تردید “مسنگ لنک”(درمیانی شکل کا گمشدہ جانور) کہا جا سکے ۔ جن فوسلز کو وقتاً فوقتاً مسنگ لنکس کہا جاتا رہا وہ ایک ایک کر کے یا فراڈ ثابت ہوئے یا وہ مسنگ لنکس تھے ہی نہیں ۔ ارتقاء اسکو بھی اتفاق ہی کہتا ہے !!!
دوسری بات بہت سے ایسے جانداروں کے فوسل ملے ہیں جو کروڑوں سال بعد بھی بغیر کسی تبدیلی کے آج تک زندہ ہیں ۔ان میں ارتقاء کا عمل کیوں نہیں ہوا اور وہ کروڑوں سال بعد بھی ویسے کے ویسے کیوں ہیں ؟ ارتقاء کے پاس اسکو بھی محض اتفاق کہنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں۔
تیسری اہم ترین بات کہ فوسلز ریکارڈ جانداروں کو مختلف ادوار میں تقسیم کرتا ہوا نظر آتا ہے لیکن حیرت انگیز انداز میں ہر دور کے جاندار اچانک ہی زمین پر نمودار ہوتے اور اچانک ہی غائب ہوتے نظر آتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے اس پر ارتقاء اور فوسلز دونوں خاموش ہیں کیوں ؟ شائد یہ بھی کوئی اتفاق ہی ہے ۔۔۔۔؟؟؟
چند بے شعور اور اندھے بہرے کیمکلز نے کیسے شعور ، عقل ، اخلاقیات اور خدا تک کا تصور پیدا کیا ؟
ارتقاء نامی نظریہ 100 سال بعد بھی اپنا “خود کا ارتقاء” نہیں کر سکا اور اب بھی وہیں کا وہیں کھڑا ہے ۔ وہ اب تک محض ایک نظریہ ہی ہے سائنسی اصول نہیں بن سکا ہے کیوں؟
(اس نظریے پر ہونے والی محنت ، وقت اور سرمایہ حیاتیات کے دیگر ایسے شعبوں پر صرف کیا جا سکتا تھا جس سے نوع انسانی کو کوئی فائدہ پہنچتا)
مچل رس نامی ایولوشنسٹ سائنسدان تسلیم کرتا ہے کہ ” نظریہ ارتقاء ” سائنس نہیں بلکہ مذہب ہے اور یہ بات اس نظریے کے شروع میں بھی سچ تھی اور اب بھی سچ ہے ۔” (اگر آپ سائنس میں مذہب نہین پڑھا سکتے تو نظریہ ارتقاء کیوں پڑھایا جاتا ہے ؟)
چونکہ نظریہ ارتقاء کو الحاد سائنسی نظریہ کہتا ہے نہ کہ عقیدہ یا ایمان تب اسکو ثابت یا رد کیا جا سکتا ہے اور اب تک کی تحقیق نے اسکو صرف رد کیا ہے ۔۔۔
اس لیے ہمارے پاس اور کوئی چارہ نہیں سوائے اسکے کہ ہم دوسرے آپشن کی طرف جائیں ۔ یعنی ہم یہ تسلیم کر لیں کہ جاندار خود نہیں بنے بلکہ انکو تخلیق کیا گیا ہے اور ظاہر ہے ۔۔۔۔ “تخلیق کے لیے خالق کا وجود لازم ہے ۔”
ایک عظیم خالق کا وجود تسلیم کرنے کے بعد ان لامتناہی ،محال، لایعنی اور احمقانہ ” اتفاقات” سے ہماری جان چھوٹ جاتی ہے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
الحاد کے پاس اخلاقی پیمانے مقرر کرنے یا کسی کام کے اخلاقی لحاظ سے صحیح یا غلط ہونے کا کوئی واضح تصور موجود نہیں ۔ در حقیقت وہ اس پر بات ہی نہیں کرتے ۔
یہ ہونا چاہئے اور یہ نہیں ہونا چاہئے ۔کیوں ہونا چاہئے اور کیوں نہیں ہونا چاہئے کوئی جواب نہیں ۔ الحاد کی دنیا میں جھوٹ ، دھوکہ ، چوری غلط ہیں تو کیوں اگر صحیح ہیں تو کیوں ؟ ۔
الحاد کہتا ہے کہ ۔۔۔ “ہم معاشرے کو بہتر بنانا چاہتے ہیں اور جھوٹ ، دھوکہ ، فریب وغیرہ معاشرے کے لیے نقصان دہ ہیں ۔”۔۔۔ لیکن یہ جواز یا دلیل ایک فرد واحد پر کیسے کام کرتی ہے ؟ اسکا الحاد کے پاس کوئی جواب نہیں ۔ جبکہ فرد واحد ہی معاشرے کی اکائی ہوتا ہے ۔
نظریہ الحاد کے مطابق ۔۔۔ اس زندگی کے بعد کچھ نہیں ۔
تب عقل کا تقاضا یہی ہے کہ ہم اپنی زندگی سے زیادہ سے زیادہ لذت کشید کر لیں۔ الحاد ہمارے اس مقصد کو غلط کیسے کہے گی ؟؟لیکن اگر ہمارا یہ مقصد صحیح ہے تو ۔۔۔
کوئی انسان قانونی خطرے سے بچتے ہوئے چوری کر سکتا ہو تو کیوں نہ کرے ؟
ماں یا بہن سے شادی کیوں نہ کرے ؟
غیبت اور چغلی کیوں نہ کرے جبکہ وہ اس کے ذریعے اپنے مقابل سے آگے نکل سکتا ہے؟
کسی مرے ہوئے صحت مند انسان کا گوشت کیوں نہ کھائے جبکہ وہ ضائع ہو رہا ہو ؟
وعدہ توڑنے میں خود کا کوئی نقصان نہ ہو تو کیوں نہ توڑے ؟
مرتے ہوئے بھوکے شخص کو کھانا کیوں دے ؟
الحاد مجھے یہیں بیچ میں روکتے ہوئے دوبارہ کہے گا کہ۔۔۔۔ ” ایک اچھے معاشرے کے قیام کے لیے ۔۔۔” تو میرا سوال پھر بھی وہیں کا وہیں رہے گا کہ ۔۔۔۔۔ ” اجتماعی مفاد پر انسان اپنا ذاتی مفاد کیوں قربان کرے ؟ جبکہ اسکے پاس صرف یہی زندگی ہے ؟”
مجھے بتائیں یہ ” قربانی ” کیسے عقل کے خلاف نہیں ؟
یہاں وضاحت کر دوں کہ کوئی ملحد اچھے اخلاق کا حامل ہو سکتا ہے ۔ لیکن مسئلہ یہ نہیں ۔ معاملہ “اختیار” کیے گئے اچھے اخلاقیات کا ہے ۔ یہ وہ اخلاقیات ہوتے ہیں جو کسی سبب سے اختیار کیے جائیں ۔ انکا ان اخلاقیات سے کوئی تعلق نہیں جو ہر شخص اپنی الگ فطرت کے ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے ۔
الحاد کے پاس یہ کہنے کے سوا کچھ نہیں ۔۔۔ ” کہ لوگ خود ہی اخلاقی اقدار اپنائیں ۔ ” ۔۔۔ لیکن یہ فارمولہ صرف ان لوگوں پر کام کر سکتا ہے جو فطرتاً اچھے ہیں جو نہیں ہیں ان پر یہ فارمولہ کیسے کام کرتا ہے ؟ اسکا جواب نہیں ۔۔۔!!
وہ یہ سارا معاملہ انسانوں کی فطرت پر چھوڑنے پر مجبور ہیں جو نہایت خطرناک ہے ! کیوں خطرناک ہے ؟
ذرا اپنے ارد گرد نظر ڈالیے ۔ آپ کو دنیا میں جو جنگ و جدل اور فساد برپا نظر آرہا ہے اسکے پیچھے انسان کی فطرت میں موجود لالچ ، ھوس اور کینہ وغیرہ بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں ۔ یہ جنگ و جدل اور فساد اکثریت کی فطرت کا مظہر ہے ۔
اس فطرت کے مالک انسانوں کو آپ یہ بتارہے ہیں کہ۔۔۔ ” آپ کے پاس صرف یہی زندگی ہے لیکن “معاشرے کی بہتری” کے لیے آپ بہت سی چیزوں سے اپنا ہاتھ روک لیں ۔۔۔”
لاچ، ھوس اور کینے سے بھری فطرت کا مالک ، عقل کا پیکر یہ خود غرض انسان آپ کی بات کیوں مانے گا ؟؟
ڈارون اور کارل مارکس جنکے نظریات پر الحاد کی عمارت کھڑی ہے اس پر متفق ہیں کہ ۔۔” زندگی بقا کی جدوجہد ” ہے ۔ آپ ذرا غور کریں صرف یہ نظریہ ہی انسان کو ایک خوفناک قسم کا جارحانہ اور خودغرضانہ طرز عمل اختیار کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ اخلاقی پیمانے کون مقرر کرے گا ۔ کسی معاملے پر آپکا نقطہ نظر صرف آپکا نقطہ نظر ہے کسی اور کا مختلف ہوگا ۔ تو کس کا صحیح مانا جائیگا ؟ ۔۔
ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اخلاقی پیمانے انسانوں سے ہٹ کر کوئی ہستی مقرر کرے اور ان کے لیے انسان کو لازمً جواب دہ ٹہرائے ۔ وہ ہستی لازمً ایسی ہونی چاہئے جو انسان کی نیتوں تک کا حال جانتی ہو۔
اپنی بے بسی سے تنگ الحاد بعض اوقات ایسی وضاحتیں پیش کرنے لگتا ہے جس سے کچھ بھی درست ثابت کیا جا سکتا ہے
یا اپنی ناکامی تسلیم کیے بغیر یہ سوال کرنے لگتا ہے کہ ۔۔۔ ” خدا کا وجود ثابت کرو ۔۔”
حالانکہ ہم بار بار یاد دہانی کرواتے ہیں کہ اس کے وجود پر ہمارا “ایمان” ہے ۔ جس کے لیے ہمیں کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ۔ الحاد اپنے نظریے ثابت کرنے کا دعوی کرتا ہے تو کر کے دکھائے ؟؟
الحاد کی اسی بے بسی نے ملحدین کی ایک ایسی قسم کو جنم دیا ہے جو خدا کا وجود تو تسلیم کرتے ہین لیکن مذاہب کا انکار کرتی ہیں۔
میں نظریہ الحاد کے تمام پیروکاروں اور اس تحریر کے پڑھنے والوں کو دعوت دیتا ہوں کہ ۔۔۔ ” تم سب کہہ دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (ص) اللہ کے رسول ہیں ” ۔۔۔تم کامیاب ہو جاؤگے ۔
تحریر شاہدخان