وسیلہ کی حقیقت
التوسل والوسيلة” کا لغوی معنیٰ ہے بذریعہ عمل تقرب حاصل کرنا، جیسا کہ علامہ جوہری نے صحاح کے ص456 پر تحریر فرمایا ہے:
توسل اليه بوسيلة اى تقرب اليه بعمل
مجمع البحار میں ہے:
الوسيلة اصلها مايتوسل به الى شئ ويتقرب به
“یعنی وسیلہ کا معنیٰ کسی شے سے کسی چیز کا قرب حاصل کرنا ہے۔” (ج3 ص436 مطبوعہ نول کشور)
قاموس میں ہے کہ “وسیلہ اور واسلہ، بادشاہ کے قرب، درجہ، اور منزلت کا نام ہے۔” (ربع رابع ص49 مطبوعہ نول کشور)
معجم المقاییس میں ہے: الوسيلة الرغب والطلب ۔۔۔ یعنی کسی چیز کی طرف رغبت کرنا۔” (معجم المقاییس لابن فارس)
جبکہ شرعی اصطلاح میں بذریعہ اطاعت، عبادت، اتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم والانبیاء اور اعمال صالحہ سے قرب خداوندی حاصل کرنا۔۔۔ یا کسی بزرگ، صاحب الورع، متقی اور صالح شخص کی دعا کے ذریعہ (بشرطیکہ وہ زندہ ہو) خداوندِ قدوس کا قرب حاصل کرنا وسیلہ ہے۔
قرآن کریم میں لفظ وسیلہ دو مقام پر وارد ہے۔ جہاں باتفاق مفسرین، اطاعت الہی اور بذریعہ اعمال صالحہ تقرب حاصل کرنا مراد ہے۔ ملاحظہ ہو ابن کثیر، ابن جریر، جامع البیان، زیر آیت وسیلہ۔
اللہ تعالیٰ کے اسماء اور صفات کا وسیلہ:
اللہ تعالیٰ کے اسماء اور صفات کا وسیلہ کتاب و سنت سے مشروع ہے، قرآن کریم میں ہے:
﴿وَلِلَّهِ الأَسماءُ الحُسنىٰ فَادعوهُ بِها ۖ وَذَرُوا الَّذينَ يُلحِدونَ فى أَسمـٰئِهِ ۚ سَيُجزَونَ ما كانوا يَعمَلونَ ﴿١٨٠﴾… سورةالاعراف
“اور اچھے اچھے نام سب اللہ کے لیے خاص ہیں، انہی ناموں سے اس کو پکارا کرو اور ان لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دو، جو اس کے ناموں میں کج روی کا طریقہ اختیار کرتے ہیں، ایسے لوگ جو کچھ کر رہے ہیں بہت جلد اس کا بدلہ دئیے جائیں گے۔ (کشف الرحمن ج1 ص276)
اور کتبِ حدیث میں اسمِ اعظم کے ذریعہ دعا کرنے کی بڑی تاکید ہے جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ:
“میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد میں بیٹھا ہوا تھا جبکہ ایک شخص نماز پڑھ رہا تھا۔ اس نے دعا مانگی:
اللهم انى اسئلك بان لك الحمد لا اله الاانت الحنان المنان بديع السموات والارض ياذالجلال والاكرام ياحى ياقيوم اسئلك
یہ سن کر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“اس نے اللہ تعالیٰ کے اسمِ اعظم کے ساتھ دعا مانگی ہے جو شخص بھی اس وسیلہ سے دعا مانگے گا اللہ تعالیٰ قبول فرمائے گا اور جب بھی اس کے ذریعہ سوال کیا جائے گا اللہ تعالیٰ دے گا۔” (ترمذی، ابوداؤد و مع عون المعبود ص255، نسائی، ابن ماجہ، بحوالہ مشکوۃ مطبوعہ کراچی ص200 جلد اول)
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ نبی کریم علیہ التحیۃ والتسلیم نے سنا ایک شخص کہہ رہا تھا:
اللهم انى اسئلك بانك انت الله لااله الا انت الاحد الصمد الذى لم يلد ولم يولد ولم يكن له كفوا احد-
تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا، “اس نے اسمِ اعظم کے ساتھ دعا کی، جب اس وسیلہ سے سوال کیا جائے وہ دیتا ہے اور جب پکارا جائے قبول فرماتا ہے۔” (ترمذی، ابوداؤد و مع عون المعبود ص554، بحوالہ مشکوۃ المصابیح ص199 جلد اول)
2۔ اعمال صالحہ کا وسیلہ:
اعمال صالحہ کے وسیلہ میں بھی کسی کو اختلاف نہیں کیونکہ “وابتغوااليه الوسيلة سے مراد اعمال صالحہ سے قرب حاصل کرنا ہے۔ بشرطیکہ یہ اعمال اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے کیے گئے ہوں، ریاء شرک اور شہرت سے پاک ہوں، بدعات و خرافات سے منزہ اور کتاب و سنت کی ہدایات کے عین مطابق ہوں۔ ایسے اعمال صالحی کے وسیلہ سے دعا کرنا مصائب و آلام سے رستگاری حاصل کرنا ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت سے ظاہر ہے کہ:
“غار والے تین اشخاص جو مصیبت میں پھنس گئے تھے تو ان میں سے ایک صاحب نے کہا:
انظرو ااعمالا عملتموها لله صالحة فادعوالله بها لعل الله يفرجها
یعنی “اپنے اعمالِ صالحہ کو بارگاہِ ایزدی میں پیش کرو، ممکن ہے کہ اللہ کریم ہمیں اس مصیبت سے نجات دے۔”
چنانچہ ان میں سے ایک نے اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کو وسیلہ بنا کر اللہ سے دعا کی۔ دوسرے نے زنا سے پاک رہنے کو وسیلہ بنایا حالانکہ وہ ایک مرتبہ ایک عورت پر پوری طرح قابو پا چکا تھا اور تیسرے نے اپنے مزدور کی مزدوری بڑھا کر دینے کو وسیلہ بنایا جب کہ مزدور اپنی اُجرت چھوڑ کر جا چکا تھا۔ پھر جب وہ مدتِ دراز کے بعد آیا تو اس نے اس حالت میں اسے مزدوری دی کہ وہ بڑھ کر مال کی بہت بڑی مقدار بن چکی تھی۔ اس طرح جب انہوں نے ان اعمال کو پیش کر کے نجات طلب کی تو اللہ کریم نے اس مصیبت سے انہیں نجات دے دی (تفصیل کے لیے دیکھئے، صحیح مسلم ج2 ص 353، مشکوۃ مطبوعہ کراچی ج 2 ص420)
3۔ درود شریف کا وسیلہ
حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے کا وسیلہ بھی مشروع ہے، ہر دعا کے ساتھ پڑھنا قبولیت شرفِ قبولیت کا باعث ہے۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت سے ظاہر ہے کہ “میں نے نماز پڑھی اور بیٹھ گیا، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی اور نبی علیہ السلام پر درود پڑھا، پھر اپنے لیے دعا مانگی تو نبی علیہ السلام نے فرمایا: سل تعطه سل تعطه مانگو دئیے جاؤ گے، سوال کرو عطا کئے جاؤ گے۔” (ترمذی بحوالہ مشکوۃ، ص87 جلد اول)
حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ نبی کریم علیہ التحیۃ والتسلیم تشریف فرما تھے کہ ایک شخص آیا، نماز پڑھی اور نماز کے بعد فورا دعا کی:
اللهم اغفرلى وارحمنى
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
عجلت ايها المصلى اذا صليت فقدت فاحمدالله بما هوا اهله وصل على ثم ادعه
“اے نمازی تو نے جلدی کی، جب تو نماز پڑھے، فارغ ہو کر بیٹھ جائے، تو خداوندِ قدوس کی تعریف کر، جو اس کی شان کے لائق ہو پھر مجھ پر درود پڑھ، پھر اللہ سے دعا کر”
پھر ایک اور شخص آیا اس نے نماز پڑھی، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کی اور نبی علیہ السلام پر درود پڑھا تو حضور علیہ السلام نے فرمایا:
ايها االمصلى ادع تجب
“اے نمازی دعا مانگ تیری دعا قبول کی جائے گی۔” (ترمذی، ابوداؤد، نسائی بحوالہ مشکوۃ ج1 ص86)
بعض روایات سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بغیر درود کے دعا معلق رہتی ہے یعنی عدمِ قبولیت کا شکار ہو جاتی ہے جیسا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ:
ان الدعاء موقوف بين السماء ولارض لايصعد منها شئى حتى تصلى على نبيك
یعنی “جب تک نبی علیہ السلام پر درود نہ پڑھا جائے، دعا زمین و آسمان کے درمیان معلق رہے گی۔”
اسی طرح طبرانی نے اوسط میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ، سے نقل کیا ہے:
كل دعا محجوب حتى يصلى على محمد ﷺ
کہ “ہر دعا رُکی رہتی ہے جب تک کہ نبی علیہ السلام پر درود نہ پڑھا جائے (اور جب درود پڑھا جائے گا دعا قبول ہو گی۔”)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا وسیلہ:
کتبِ حدیث اس پر ناطق ہیں کہ نبی علیہ السلام کی حیات طیبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کرائی گئی، جیسا کہ امام المحدثین محمد بن اسماعیل البخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے کہ قحط سالی کے موقع پر قریش نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے درخواست کی، دعا فرمائیے کہ خدا ہمیں سیراب کر دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی تو خوب مینہ برسا، دعا کے الفاظ یہ ہیں:
«الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ، اللَّهُمَّ أَنْتَ اللَّهُ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ الْغَنِيُّ وَنَحْنُ الْفُقَرَاءُ، أَنْزِلْ عَلَيْنَا الْغَيْثَ، وَاجْعَلْ مَا أَنْزَلْتَ لَنَا قُوَّةً وَبَلَاغًا إِلَى حِينٍ»
“سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو رب العالمین ہے۔ بڑا رحم کرنے والا مہربان ہے، جزا کے دن کا مالک ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے۔ اے اللہ، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو غنی ہے اور ہم فقیر ہیں۔ ہم پر بارش نازل فرما اور جو کچھ تو ہم پر نازل فرمائے اسے ایک مدت تک قوۃ اور پہنچنے کا ذریعہ بنا دے۔” (ابوداؤد، بحوالہ مشکوۃ، ج1 ص132)
جب مکہ معظمہ میں قحط سالی ہوئی تو ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے عرض کی:
يامحمدتأمرنا بطاعة الله وبصله الرحم وان قومك قد هلكو افادع الله لهم
“اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ تو اللہ کی فرماں برداری اور صلہ رحمی کا حکم کرتے ہیں، مگر آپ کی قوم قحط سے مر رہی ہے۔ ان کے لیے دعا کیجئے” تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی تو خوب بارش ہوئی۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو وہاں کی قحط سالی کے موقعہ پر ایک اعرابی نے دعا کی درخواست کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی۔ ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک خوب بارش ہوئی۔ جب مکانات منہدم ہونے کا خدشہ ظاہر ہوا تو اسی اعرابی نے بارش رکنے کی دعا کے لیے دوبارہ عرض کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا فرمائی:
الهم حوالينا والاعلينا الهم على الاكام واالظراب وبطون الاردية ومنابت الشجر-
“اےاللہ ہمارے آس پاس بارش ہو، ہمارے اوپر نہ ہو۔ اے اللہ ٹیلوں، پہاڑوں ، نالوں اور جنگلوں میں برسا۔” ۔۔۔ تب بارش رک گئی (بخاری و مسلم)
مومن کی دعا کا وسیلہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ دعا کا یہ سلسلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ تک محدود رہا۔ اس کے بعد دوسرے ممتاز صالحین بزرگوں سے دعا کرائی گئی۔ چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک قحط سالی کے موقعہ پر حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے دعا کرائی اور کہا:
«اللهم إنا كنا نتوسل إليك بنبينا فتسقينا، وإنا نتوسل إليك بعم نبينا فاسقنا»“اے خالقِ کائنات، ہم نبی علیہ السلام کی حیات طیبہ میں تو ان کی دعا کا وسیلہ پکڑتے تھے اور سیراب ہو جاتے تھے۔ آج ہم ان کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو دعا کے لیے وسیلہ لائے ہیں اب ان کی دعا (کے وسیلہ) سے ہمیں سیراب کر دے تو اللہ کریم نے خوب بارش برسائی۔” (مشکوۃ مطبوعہ کراچی ج1 ص132)
حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی دعا کے الفاظ سبل السلام اور فتح الباری میں یوں مرقوم ہیں:
اللَّهُمَّ إِنَّهُ لَمْ يَنْزِلْ بَلَاءٌ إِلَّا بِذَنْبٍ وَلَمْ يُكْشَفْ إِلَّا بِتَوْبَةٍ وَقَدْ تَوَجَّهَ الْقَوْمُ بِي إِلَيْكَ لِمَكَانِي مِنْ نَبِيِّكَ وَهَذِهِ أَيْدِينَا إِلَيْكَ بِالذُّنُوبِ وَنَوَاصِينَا إِلَيْكَ بِالتَّوْبَةِ فَاسْقِنَا الْغَيْثَ
“اے اللہ کریم، سختی ہمیشہ گناہ کی وجہ سے وارد ہوتی ہے اور گناہ توبہ کے ساتھ معاف ہو جاتا ہے۔ بوجہ قرابت تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے، نبی علیہ السلام کے بجائے لوگوں نے اب مجھے تیری طرف متوجہ کیا ہے۔ یہ ہمارے گناہوں سے لبریز ہاتھ، اور ہماری پیشانیاں توبہ کے ساتھ تیری متوجہ ہیں۔ ہمیں سیراب کر دے۔” اس کے بعد موسلا دھار بارش ہوئی۔ (فتح الباری ج2، ص239)
صاحب روح المعانی محمود آلوسی اس واقعہ کے تحت رقمطراز ہیں:
فإنه لو كان التوسل به عليه الصلاة والسلام بعد انتقاله من هذه الدار لما عدلوا إلى غيره، بل كانوا يقولون: اللهم إنا نتوسل إليك بنبينا فاسقنا، وحاشاهم أن يعدلوا عن التوسل بسيد الناس إلى التوسل بعمه العباس، وهم يجدون أدنى مساغ لذلك، فعدولهم هذا- مع أنهم السابقون الأولون، وهم أعلم منا بالله تعالى ورسوله صلّى الله عليه وسلّم، وبحقوق الله تعالى ورسوله عليه الصلاة والسلام، وما يشرع من الدعاء وما لا يشرع، وهم في وقت ضرورة ومخمصة يطلبون تفريج الكربات وتيسير العسير، وإنزال الغيث بكل طريق- دليل واضح على أن المشروع ما سلكوه دون غيره.(آلوسى روح المعانى:ص 297)
خلاصہ یہ ہے کہ “اگر توسل بعد از وفاتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جائز ہوتا تو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین دوسری طرف عدول نہ کرتے بلکہ یوں گویا ہوتے “الہی ہم اپنے نبی (علیہ السلام) کے ساتھ توسل کرتے ہیں ہم پر بارش برسا” ۔۔۔اور حاشا وہ سید الناس (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کا توسل چھوڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس رضی اللہ عنہ کا توسل اختیار نہ کرتے، اگر کچھ بھی گنجائش دیکھتے۔ پس ان کا س فعل سے عدول ۔۔۔ باوجودیکہ وہ سابقون الاولون میں سے تھے اور اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے حقوق ہم سے زیادہ جانتے تھے اور دعا کی مشروعیت، اور غیر مشروعیت سے بھی واقف تھے اور اوقاتِ مصائب و آلام اور قحوط میں آسانی اور رفع الم کی دعا کرتے تھے۔۔۔ اس امر پر بین دلیل ہے کہ موافقِ شرع وہی طریقہ ہے جو انہوں نے اختیار کیا۔”
پھر فرماتے ہیں:
إن هذا التوسل ليس من باب الإقسام بل هو من جنس الاستشفاع، وهو أن يطلب من الشخص الدعاء والشفاعة، ويطلب من الله تعالى أن يقبل دعاءه وشفاعته، ويؤيد ذلك أن العباس كان يدعو وهم يؤمنون لدعائه حتى سقوا،
“خلاصہ یہ ہے کہ “یہ توسل شفاعت کی قسم ہے کہ کسی شخص سے دعا کرئی جائے اور خدا سے دعا کی جائے کہ اس زندہ بزرگ کی دعا اور سفارش قبول فرمائے اور یہ بات اس کی تائید کرتی ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ دعا کرتے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا پر آمین کہتے تھے۔ یہاں تک کہ بارش سے سیراب کر دئیے جاتے تھے۔” رضی اللہ عنھم اجمعین (روح المعانی تحت آیتِ وسیلہ)
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی صلی اللہ علیہ وسلم یہ واقعہ بیان کرتے کے بعد رقمطراز ہیں کہ:
“ایں جا ثابت شد کہ توسل بگذشتان و غائبان جائز نداشتند وگرنہ عباس رضی اللہ عنہ از سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم بہتر نبود، چرانہ گفت، توسل میکردیم بہ پیغمبر تو والحال توسل میکنم بروحِ پیغمبر تو۔ صلی اللہ علیہ وسلم (بلاغ المبین ص7)
“حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو دعا میں سیلہ پکڑنے سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ فوت شدگان اور غائبوں کا وسیلہ پکڑنا جائز نہیں، ورنہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر نہ تھے۔ اگر فوت شدگان کا وسیلہ جائز تھا تو یہ کیوں نہ کہا گیا کہ “یا اللہ ہم پہلے تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وسیلہ پکڑتے تھے، اب ہم تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روح کے ساتھ وسیلہ پکڑتے ہیں۔”
اسی طرح حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی حضرت یزید بن اسود رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے دعا کی۔ چنانچہ شرح مشکوۃ میں علامہ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ کا بیان مرقوم ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت یزید بن اسود رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے بارش کی دعا کی اور عرض کی، “اے اللہ کریم، ہم اپنے سے بہتر اور افضل شخص کے ذریعہ تجھ سے بارش طلب کرتے ہیں۔ حضرت یزید رضی اللہ عنہ کے ستھ لوگوں نے بھی اپنے ہاتھ اٹھائے (اور دعا کی) اچانک مغرب کی جانب سے ایک بادل اٹھا، گویا کہ وہ ڈھال ہے۔ ہوا چلی ، بارش شروع ہو گئی، قریب تھا کہ لوگ گھروں کو نہ پہنچ سکیں ۔۔۔ تسکین قلب کے لیے عربی عبارت ملاحظہ فرمائیں:
واستقى معاوية بيزيدبن الاسود فقال اللهم انا نستقى بخيرنا وافضلنا اللهم انا نستقى بيزيدبن الاسود يايزيد ارفع يديك الي الله تعالي فرفع يديه ورفع الناس ايديهم فتارت سحابة من المغرب كانها ترس وهبت ريح فسقوا حتى كاد الناس لايبلغون منازلهم-
یہ روایت باختلافِ الفاظ “صراط مستقیم” لابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے خاتمہ میں، “قاعدہ جلیلہ، ص 51 اور “صیانۃ الانسان” کے ص379 پر مذکور ہے۔ نیز تاریخ اب عساکر میں اسی طرح منقول ہے۔
5۔ وسیلہ کی پانچویں قسم
اللہ تعالیٰ کے مبارک نام کو انبیاء علیھم السلام، والمرسلین علیھم السلام، فرشتگان اور بدگانِ صالحین میں سے کسی کی طرف مضاف کر کے دعا کرنا بھی جائز ہے جیسا کہ بخاری مسلم کی روایت سے ظاہر ہے۔ چنانچہ حضرت امِ سلمہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں، میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا، “نبی علیہ السلام رات کی نماز کس طرح شروع فرماتے؟” تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جوابا فرمایا، “جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اٹھتے تھے تو اپنی نماز کو اس دعا سے شروع فرماتے تھے:
«اللَّهُمَّ رَبَّ جِبْرِيلَ وَمِيكَائِيلَ وَإِسْرَافِيلَ فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ، اهْدِنِي لِمَا اخْتُلِفَ فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِكَ إِنَّكَ أَنْتَ تَهْدِي مَنْ تَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ(ابو داود حديث:767)
“اے اللہ! جبرائیل، میکائیل، اسرافیل کے پروردگار، آسمانوں اور زمینوں کے پیدا کرنے والے، پوشیدہ اور حاضر کو جاننے والے، تو خود اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کرے گا جن امور میں وہ اختلاف کرتے ہیں۔ تو مجھے ہدایت عطا فرما اس حق سے جس میں اختلاف کیا گیا۔ تو جس کو چاہے صراطِ مستقیم کی ہدایت نصیب فرماتا ہے۔”
اسی طرح جامع ترمذی اور مسند احمد میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:
جب ہم سونے لگیں تو یہ دعا پڑھ لیا کریں:
«اللهُمَّ رَبَّ السَّمَاوَاتِ وَرَبَّ الْأَرْضِ وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، رَبَّنَا وَرَبَّ كُلِّ شَيْءٍ، فَالِقَ الْحَبِّ وَالنَّوَى، وَمُنْزِلَ التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ وَالْفُرْقَانِ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ كُلِّ شَيْءٍ أَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِيَتِهِ، اللهُمَّ أَنْتَ الْأَوَّلُ فَلَيْسَ قَبْلَكَ شَيْءٌ، وَأَنْتَ الْآخِرُ فَلَيْسَ بَعْدَكَ شَيْءٌ، وَأَنْتَ الظَّاهِرُ فَلَيْسَ فَوْقَكَ شَيْءٌ، وَأَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَيْسَ دُونَكَ شَيْءٌ، اقْضِ عَنَّا الدَّيْنَ، وَأَغْنِنَا مِنَ الْفَقْرِ»
“اے اللہ، آسمانوں اور زمینوں کے رب، عرشِ عظٰم کے رب، ہمارے اور ہر چیز کے پروردگار، دانے اور گٹھلیوں کے پھاڑنے والے، توراۃ و انجیل اور فرقان کے اتارنے والے، میں ہر چیز کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں، جس کی پیشانی کو تو پکڑے ہوئے ہے، اے اللہ تو ہی اول ہے تجھ سے پہلے کوئی چیز نہیں، تو ہی آخر ہے تیرے بعد کچھ نہیں۔ تو ہی ظاہر ہے تیرے اوپر کچھ نہیں۔ تو ہی باطن ہے تیرے سوا کچھ نہیں۔ ہم سے قرض ادا فرما اور ہم کو فقر سے نجات عطا فرما”
اسی طرح بعض روایات میں صبح کی سنتوں کے بعد یہ دعا بھی منقول ہے:
اللهم رب جبريل واسرافيل وميكال ومحمد النبى ﷺ اعوذبك من النار(الاذكار للنووى)
“اے اللہ جبریل علیہ السلام، اسرافیل علیہ السلام، میکائیل علیہ السلام اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے رب، میں آگ سے تیری پناہ چاہتا ہوں”
یہ وسیلہ مشروعہ کے چند اقسام تھے جو بالاتفاق جائز اور شبہات سے خالی ہیں۔ اس میں شرک و بدعت کا کوئی خطرہ نہیں بلکہ کتاب و سنت سے منصوص بھی ہیں۔
آئندہ صفحات میں ہم وسیلہ کی ناجائز صورتیں ۔۔۔ متوسلین بالذات والقبور کے دلائل اور ان کے جوابات نقل کریں گے۔ وبالله التوفيق
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ حق سمجھنے اور حق پر عمل کرنے کی توفیق ارزانی فرمائے۔ آمین (جاری ہے)
حوالہ و حواشی
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابتَغوا إِلَيهِ الوَسيلَةَ وَجـٰهِدوا فى سَبيلِهِ لَعَلَّكُم تُفلِحونَ﴿٣٥﴾… سورة المائدة
“اے ایمان والو، اللہ سے ڈرتے رہو اور اس کی جناب میں قرب حاصل کرنے کا ذریعہ تلاش کرو اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو، توقع ہے کہ تم کامیاب ہو جاؤ گے، (کشف الرحمن ج1، ص180)
﴿قُلِ ادعُوا الَّذينَ زَعَمتُم مِن دونِهِ فَلا يَملِكونَ كَشفَ الضُّرِّ عَنكُم وَلا تَحويلًا ﴿٥٦﴾ أُولـٰئِكَ الَّذينَ يَدعونَ يَبتَغونَ إِلىٰ رَبِّهِمُ الوَسيلَةَ أَيُّهُم أَقرَبُ وَيَرجونَ رَحمَتَهُ وَيَخافونَ عَذابَهُ ۚ إِنَّ عَذابَ رَبِّكَ كانَ مَحذورًا﴿٥٧﴾… سورة بنى اسرائيل
“فرمائیے کہ تم جن کو خدا کے سوا معبود سمجھے بیٹھے ہو ذرا ان کو پکارو تو وہ فرضی معبود نہ تم سے کسی تکلیف کے دور کرنے کا اختیار رکھتے ہیں اور نہ تکلف کے بدل دینے کا اختیار ان کو ہے جن کو یہ مشرک پکارا کرتے ہیں۔ ان کی خود یہ حالت ہے کہ وہ اپنے رب کی طرف پہنچنے کا ذریعہ تلاش کرتے ہیں کہ ان میں کون زیادہ مقرب ہے اور خدا کی رحمت کے امیدوار، اور اس کے عذاب سے کائف رہتے ہیں۔ واقعی آپ کے رب کا عذاب ہے بھی ڈرنے کی چیز” (کشف الرحمن مطبوعہ کراچی ص458 جلد اول)
اس قحط کا واقعہ سئہ 18 ہجری میں پیش آیا اور یہ خشک سالی برابر نو ماہ رہی تھی۔ (ملاحظہ ہو صحیح بخاری)