دین اسلام میں اللہ تعالى نے صرف دو عیدیں رکھی ہیں عید الفطر اور عید الأضحى ۔ سیدنا انس بن مالک رحمۃ اللہ علیہ بیان فرماتے ہیں :
كَانَ لِأَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ يَوْمَانِ فِي كُلِّ سَنَةٍ يَلْعَبُونَ فِيهِمَا فَلَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ قَالَ كَانَ لَكُمْ يَوْمَانِ تَلْعَبُونَ فِيهِمَا وَقَدْ أَبْدَلَكُمْ اللَّهُ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا يَوْمَ الْفِطْرِ وَيَوْمَ الْأَضْحَى [سنن النسائي , كتاب صلاة العيدين بابٌ (1556)]
اہل جاہلیت کے دو دن ایسے تھے جن میں وہ کھیلا کرتے تھے تو جب رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے فرمایا ” تمہارے دو دن تھے جن میں تم کھیلا کرتے تھے اور اب اللہ تعالى نے تمہیں ان کی نسبت بہتر دو دن عطاء فرمائے ہیں یعنی عید الفطر اور عید الاضحى کا دن ۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنی ساری حیات طیبہ میں , خلفائے اربعہ سادتنا بو بکر وعمر وعثمان وحیدر رضی اللہ عنہم نے اپنے ادوار خلافت میں , خیر القرون اور فقہائے اربعہ کے مبارک ادوار میں اس تیسری عید کا کوئی تصور موجود نہ تھا ۔ اور اس بات کا اعتراف بریلوی علماء بھی کرتے ہیں احمد یار خاں نعیمی بریلوی صاحب نقل فرماتے ہیں :
“لَمْ یَفْعَلْهُ أَحَدٌ مِّنَ الْقُرُونِ الثَّلَاثَةِ، إِنَّمَا حَدَثَ بَعْدُ.”
“میلاد شریف تینوں زمانوں میں کسی نے نہ کیا ، بعد میں ایجاد ہوا ۔” (جاء الحق : ١/٢٣٦)
اسی طرح غلام رسول سعیدی بریلوی صاحب فرماتے ہیں:
”سلف صالحین یعنی صحابہ اور تابعین نے محافلِ میلاد نہیں منعقد کیں بجا ہے۔” (شرح صحیح مسلم : ٣/١٧٩)
عبد السمیع رامپوری بریلوی لکھتے ہیں :
‘یہ سامان فرحت و سرور اور وہ بھی مخصوص مہینے ربیع الاول کے ساتھ اور اس میں خاص وہی بارہواں دن میلاد شریف کا معین کرنا بعد میں ہوایعنی چھٹی صدی کے آخر میں۔” (انوارِ ساطعہ : 159)
اکابرین بریلویہ کی زبانی یہ بات معلوم کرنے کے بعد کہ رسول اللہ ﷺ , صحابہ کرام ], تابعین وتبع تابعین s کے مبارک ادوار میں یہ بدعت موجود نہ تھی اس بات کی تحقیق کرتے ہیں کہ یہ کب ایجاد ہوئی ۔ أحمد بن علي بن عبد القادر، أبو العباس الحسيني العبيدي، تقي الدين المقريزي (المتوفى: 845 هـ) نے اپنی کتاب المواعظ والاعتبار بذكر الخطط والآثار ( ط : دار الكتب العلمية، بيروت 1418 هـ ) جلد ۲ صفحہ ۴۳۶ پر یہ عنوان قائم کیا ہے :
ذكـر الأيام التي كان الخلفاء الفاطميون يتخذونها أعيادا، ومواسم تتسع بها أحوال الرعية، وتكـثر نعمهم
ان ایام کا تذکرہ جن میں فاطمی خلفاء عیدیں اور تہوار مناتے تھے جن کے ذریعہ رعایا کے حالات کشادہ ہو جاتے اور انکی نعمتیں بڑھ جاتیں ۔
اس عنوان کے تحت لکھتے ہیں :
“وكان للخلفاء الفاطميين في طول السنة: أعياد ومواسم، وهي: موسم رأس السنة، وموسم أوّل العام، ويوم عاشوراء، ومولد النبيّ صلّى الله عليه وسلّم، ومولد عليّ بن أبي طالب رضي الله عنه، ومولد الحسن، ومولد الحسين عليهما السلام، ومولد فاطمة الزهراء عليها السلام، ومولد الخليفة الحاضر، وليلة أوّل رجب، وليلة نصفه، وليلة أوّل شعبان، وليلة نصفه، …….”
“فاطمی خلفاء سال بھر میں عیدیں اور تہوار مناتے اوروہ تہوار یہ ہیں : سال کے اختتام میں , سال کے آغاز میں , عاشوراء کے دن , میلاد النبی ﷺ , میلاد علی رضی اللہ عنہ, میلاد حسن رضی اللہ عنہ , میلاد حسین رضی اللہ عنہ , میلاد فاطمہ رضی اللہ عنہا, موجودہ خلیفہ کا میلاد , رجب کی پہلی رات کا تہوار , پندرہ رجب کا تہوار , شعبان کے شروع میں , شعبان کی پندرھویں رات …….. الخ”
پھر اسی کتاب کی جلد ۲ صفحہ ۳۳۳ پر لکھتے ہیں :
“ذكر جلوس الخليفة في الموالد الستة في تواريخ مختلفة، وما يطلق فيها، وهي مولد النبيّ صلّى الله عليه وسلّم، ومولد أمير المؤمنين عليّ بن أبي طالب، ومولد فاطمة عليها السلام، ومولد الحسن، ومولد الحسين عليهما السلام، ومولد الخليفة الحاضر”
“مختلف تاریخوں میں چھ میلادوں کے موقع پر خلیفہ کے جلوس اور دیگر کاموں کا ذکر , اور وہ میلا النبی ﷺ میلاد امیر امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ , میلاد فاطمہ رضی اللہ عنہا , میلاد حسن رضی اللہ عنہ, میلاد حسین رضی اللہ عنہ , اور موجودہ خلیفہ کا میلاد ہے ۔”
پھر اس ذکر کے دوران میلاد النبی ﷺ میں ہونے والے کاموں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
“فإذا كان اليوم الثاني عشر من ربيع الأوّل، تقدّم بأن يعمل في دار الفطرة عشرون قنطارا من السكر اليابس حلواء يابسة من طرائفها، وتعبى في ثلثمائة صينية من النحاس، وهو مولد النبيّ صلّى الله عليه وسلّم”
“تو جب ربیع الاول کی بارہ تاریخ ہوتی تو دار الفطرہ میں بیس قنطارشکر سےمختلف قسم کا خشک حلوہ تیار کیا جاتا اور اسے پیتل کے تین سو برتنوں میں ڈالا جاتا اور یہ میلاد النبی ﷺ کا تہوار ہوتا ۔”
پھر اسکے بعد اس میلاد میں ہونے والے مختلف امور کا ذکر کرتے ہوئے خلیفہ کا اس جلوس و جلسہ کی قیادت کرنا اور بڑے بڑے خطباء کا میلاد کے موضوع پر درس دینا نقل کیاہے ۔ (مصدر سابق , ص ۲۳۳, ۲۳۴)
علامہ مقریزی کی اس توضیح سے واضح ہو جاتا ہے کہ اس بدعت میلاد کے اولین موجد فاطمی خلیفے تھے اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ فاطمی خلیفے کٹر قسم کے رافضی شیعہ تھے ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عید میلاد منانا رافضی شیعوں کی ایجاد ہے ۔ اور وہ صرف میلاد النبی ﷺ ہی نہ مناتے بلکہ اسکے ساتھ ساتھ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ , حسن و حسین رضی اللہ عنہم اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اور موجودہ خلیفہ کا میلاد بھی منایا کرتے تھے ۔ اور انہی الفاظ سے اس بدعت میلاد کا تذکرہ محمد بخيت المطيعي الحنفي قاضي اسكندرية نے اپنی کتاب أحسن الكلام فيما يتعلق بالسنة والبدعة من الأحكام (ط:مطبع كردستان العلمية قاهرة 1329هـ ) کے صفحہ نمبر 61 پر بھی کیا ہے ۔ اور تقریبا یہی بات أحمد بن علي بن أحمد الفزاري القلقشندي ثم القاهري (المتوفى: 821هـ) نے اپنی کتاب صبح الأعشى في صناعة الإنشاء جلد 3 ص576 میں کچھ یوں نقل کی ہے :
الجلوس الثالث جلوسه في مولد النبي صلى الله عليه وسلم في الثاني عشر من شهر ربيع الأوّل وكان عادتهم فيه أن يعمل في دار الفطرة عشرون قنطارا من السّكّر الفائق حلوى من طرائف الأصناف، وتعبّى في ثلاثمائة صينية نحاس. فإذا كان ليلة ذلك المولد، تفرّق في أرباب الرسوم: كقاضي القضاة، وداعي الدعاة، وقرّاء الحضرة، والخطباء، والمتصدّرين بالجوامع القاهرة ومصر، وقومة المشاهد وغيرهم ممن له اسم ثابت بالديوان .
تیسرا جلوس ۱۲ ربیع الاول کو میلاد النبی ﷺ کا نکالا جاتا تھا ۔ اس جلوس میں انکا طریقہ یہ تھا کہ دار الفطرہ میں ۲۰ قنطار عمدہ شکر سے مختلف قسم کا حلوہ تیار کیا جاتا اور پیتل کے تین سو برتنوں میں ڈالا جاتا اور جب میلاد کی رات ہوتی تو اس حلوہ کو مختلف ارباب رسوم مثلا : قاضی القضاۃ , داعی الدعاۃ , قراء , واعظین , قاہر ہ اور مصرکی جامع مساجد کے صدور , مزاروں کے مجاور ونگران اور دیگر ان لوگوں میں تقسیم کر دیا جاتا جن کا نام رجسٹرڈ ہوتا ۔
اور اس بدعت کی اولین ایجاد اور پھر اسکی تجدید کی تاریخ کے بارہ میں محمد بخيت المطيعي الحنفي قاضي اسكندرية اپنی کتاب أحسن الكلام فيما يتعلق بالسنة والبدعة من الأحكام (ط:مطبع كردستان العلمية قاهرة 1329هـ ) کے صفحہ نمبر 59تا 61 پر تحریر فرماتے ہیں:
سب سے پہلے اسے قاہر ہ میں فاطمی خلفاء نے ایجاد کیا تھا اور ان میں سب سے پہلا “المعزلدین اللہ” تھا۔ جوکہ شوال 361ھ میں مغرب سے مصر آیا اور362ھ تک سکندریہ کی سرحدوں تک پہنچ گیا۔ اور اسی سال سات رمضان المبارک کو قاہرہ میں پہنچ گیا ۔ تو انہوں نے چھ میلادیں ایجاد کیں : میلاد النبی ﷺ میلاد امیر المؤمنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ میلاد سیدہ فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا , میلاد حسن رضی اللہ عنہ، میلاد حسین رضی اللہ عنہ اور موجودہ خلیفہ کا میلاد ۔ اور یہ میلادیں اسی انداز سے جاری رہیں حتى کہ ” الأفضل ابن امیر الجیوش” نے انہیں ختم کیا ۔اور اسکا والد “امیر الجیوش” “مستنصر باللہ” کی دعوت پر اسکے دور خلافت میں شام سے مصر آیا تھا اور وہ بدھ کی رات 2جمادى اولى 465ھ کو مصر میں داخل ہوا تھا ۔ اور جب وہ اہل شام سے جنگ کے لیے گیا تو اس نے اپنے بیٹے ” افضل” کو اپنا نائب بنا دیا ۔اور جب ربیع الثانی یا جمادى اولى سنہ 487ھ میں ” امیر الجیوش” فوت ہوا تو لشکر نے اسکے بیٹے “افضل ” کو اسکے قائم مقام کر دیا ۔ پھر “مستنصر باللہ ” 17 ذو الحجہ 495 میں فوت ہوگیا اور اسکی مدت خلافت سات سال اور دو ماہ تھی , تو “افضل” نے ” مستنصر باللہ ” کے بعد اسکے بیٹے “مستعلی باللہ” کو کھڑا کر دیا ۔ پھر “مستعلی” 17 صفر 495ھ کو فوت ہوگیا اور اسکی مدت خلافت سات سال اور دو ماہ تھی ۔اسکے بعد ” افضل ” نے اسکی وفات کے دن ہی اسکے بیٹے “الآمر باحکام اللہ ” کو خلیفہ بنادیا ۔پھر “افضل ” عید الفطر کی رات 515ھ کو قتل کر دیا گیا ۔ پھر “آمر باحکام اللہ ” 524ھ میں قتل ہوگیا اور اسکی خلافت میں مذکورہ بالا چھ میلادیں دوبارہ شروع ہوگئیں جبکہ ” افضل” نے انہیں ختم کر دیا تھا اور لوگ انہیں تقریبا بھول چکے تھے ۔ محمد بخيت المطيعي الحنفي قاضي اسكندرية کی اس صراحت سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ اس بدعت کا اولین موجد فاطمی خلفاء میں سے ” المعز لدین اللہ ” تھا جس نے چوتھی صدی ہجری سنہ 362 ھ میں اسے ایجاد کیا پھرپانچویں صدی ہجری سنہ 465ھ کو “افضل ابن امیر الجیوش” نے اسے ختم کر دیا اسکے بعد چھٹی صدی ہجری سنہ 516ھ میں اسے “الآمر باحکام اللہ ” نے دوبارہ شروع کیا ۔ اسی طرح عراق کے شہر اربل میں اس بدعت کی تاریخ ایجاد کے بارہ میں محمد بخيت المطيعي الحنفي قاضي اسكندرية اپنی کتاب أحسن الكلام فيما يتعلق بالسنة والبدعة من الأحكام (ط:مطبع كردستان العلمية قاهرة 1329هـ ) کے صفحہ نمبر 66 پر تحریر فرماتے ہیں: “وأقول إن الملك المظفر صاحب أربل الذي قال السيوطي أنه أول من أحدث فعل ذلك هو أبو سعيد كوكبوري ابن أبي الحسن على بن بكـتكين بن محمد الملقب بالملك الأعظم مظفر الدين صاحب أربل تولي بعد وفاة أبيه الملقب بزين الدين في عشرة ذي القعدة سنة خمسمائة وثلاثة وستين وكان عمره أربع عشرة سنة وهو أول من أحدث عمل الموالد بمدينة أربل .” ” اور میں (محمد بخیت المطیعی الحنفی) کہتا ہوں کہ ملک مظفر صاحب اربل جس کے بارہ میں امام سیوطی نے کہا ہے کہ اس نے سب سے پہلے اسے ایجاد کیا تھا اسکا نام ابو سعید کوکبوری بن ابو الحسن علی بن بکتکین بن محمد ہے , اور لقب ملک اعظم مظفر الدین صاحب اربل ہے ۔ یہ اپنے والد ” زین الدین” کی وفات کے بعد 10 ذو القعدہ 563ھ کو بادشاہ بنا تھا جبکہ اسکی عمر چودہ سال تھی ۔اور یہی وہ شخص ہے جس نے اربل شہر میں میلادوں کا آغاز کیا ۔” یعنی چھٹی صدی ہجری کے اواخر سنہ 563ھ میں شہر اربل میں بھی یہ موالید شروع ہوگئے تھے جن کے موجد فاطمی رافضی بادشاہ تھے ۔ اور صاحب اربل مظفر الدین نے یہ کام ایک صوفی ملا” عمر بن محمد” کی پیروی میں شروع کیا تھا ۔ أبو القاسم شهاب الدين عبد الرحمن بن إسماعيل بن إبراهيم المقدسي الدمشقي المعروف بأبي شامة (المتوفى: 665هـ) اپنی کتاب الباعث على إنكار البدع والحوادث ( ت: عثمان أحمد عنبر , ط: دار الهدى – القاهرة 1398 – 1978) ص 24 پر رقمطراز ہیں : وَكَانَ أول من فعل ذَلِك بالموصل الشَّيْخ عمر بن مُحـَمَّد الملا أحد الصَّالِحين الْمَشْهُورين وَبِه اقْتدى فِي ذَلِك صَاحب أربل وَغَيره. موصل شہر میں سب سے پہلے مشہور صوفی عمر بن محمد الملا نے اسے ایجاد کیا اور اربل کے بادشاہ نے بھی اس مسئلہ میں اسی کی پیروی کی ۔ یعنی موصل میں اس کام کی ابتداء اربل سے پہلے ہوئی تھی ۔ شاہ اربل نے موصلی صوفی کی تقلید میں یہ کام شروع کر لیا تھا ۔ ستم بالائے ستم یہ کہ شاہ اربل کو اس بدعت کا جواز فراہم کرنے کے لیے ایک “بدعتى ملا” بھی دستیاب آگیا جس نے اس بدعت کے جواز میں کتاب لکھ ماری ۔ محمد بخيت المطيعي الحنفي قاضي اسكندرية اپنی کتاب أحسن الكلام فيما يتعلق بالسنة والبدعة من الأحكام (ط:مطبع كردستان العلمية قاهرة 1329هـ ) کے صفحہ نمبر ۷۰ پر تحریر فرماتے ہیں: “ولما قدم عمر ابن الحسن المعروف بأبي الخطاب ابن دحية إلى مدينة أربل في سنة أربع وستمائة وهو متوجه إلى خراسان ورأى صاحبها الملك المعظم مظفر الدين ابن زين الدين مولعا بعمل مولد النبي ﷺ عمل له كـتابا سماه “التنوير في مولد السراج المنير” وقرأه عليه بنفسه , ولما عمل هذا الكـتــاب دفع له الملك المعظم ألف دينار .” ” اور جب عمر بن الحسن المعروف ابو خطاب بن دحیہ ۶۰۴ھ کو خراسان جاتے ہوئے اربل پہنچا تو اس نے دیکھا کہ شاہ اربل ملک مظفر الدین بن زین الدین میلاد النبی ﷺ کا بہت دلدادہ ہے تو اس نے اس (بادشاہ کو خوش کرنے) کے لیے ایک کتاب لکھی جسکا نام اسے نے رکھا “التنویر فی مولد السراج المنیر ” اور خود وہ کتاب بادشاہ کو پڑھ کر سنائی ۔ اور جب اس نے یہ کتاب لکھی تو ملک معظم نے اسے ایک ہزار دینار (بطور انعام) دیے ۔ یہ شاہ اربل جو کہ انتہائی ظالم قسم کا انسان تھا , رعایا پر بہت ظلم کرتا , لوگوں کے مال بلا وجہ ضبط کرلیتا تھا , اسی بدعت کے جواز پرکتاب لکھنے کی وجہ سے بطور انعام ۱۰۰۰ دینار یعنی ۳۷۵ تولہ سونا ایک کذاب شخص ابو الخطاب عمر بن الحسن کو دے دیا ۔ ایسے ہی بدعتی بادشاہوں کی وجہ سے یہ بدعات عروج پکڑگئیں اور آہستہ آہستہ دیگر ممالک میں بھی پہنچتی رہیں ۔ کسی نے سچ کہا تھا وهل أفسد الدين إلا الملوك أو أحبار سوء أو رهبانها دین کو بگاڑنے والے صرف تین قسم کے لوگ ہیں :بادشاہ , علمائے سوء , اور صوفی ۔