ایک صاحب (سعید ابراہیم ) کا اعتراض اور اس کا جواب:
نوٹ: اعتراض کو فیس بک سے جوں کا توں نقل کیا گیا ہے، اگرچہ اس میں لفظی غلطیاں بھی ہیں ۔
اعتراض:
سمجھ نہیں آتی کہ ہمیں یہود ونصاریٰ سے مسئلہ کیا ہے۔ علم، فنون، ٹیکنالوجی، تہذیب تمدن، ایجادات، قوانین، جمہوریت، کونسا ایسا شعبہ ہے جہاں وہ ہماریضرورت بلکہ مجبوری نہیں ہیں۔ حالانکہ وہ علماء جن کا علم انسانی خدمت کے لئے ایک معمولی سی سوئی بنانے کا اہل نہیں، ان کفار کی بنائی ہوئی اشیاء اور دریافت کردہ سائنسی اور سماجی قوانین کے صدقے آسائش سے کہیں زیادہ عیاشی کی زندگی گزارتے ہیں اور انہی کفار کو جہنمی “ثابت” کرکے روٹی کماتے ہیں۔ پتہ نہیں ان غیرتمندوں کو شرم کیوں نہیں آتی۔ آخر ان کو ائرکنڈیشنڈ گاڑیاں چھوڑ کر اونٹ اور گدھے پر بیٹھنے سے کس نے روک رکھا ہے؟ یہ ہمہ وقت گراہم بیل کی ایجاد اپنے کان سے کیوں لگائے رکھتے ہیں؟؟ یہ اپنے حکیموں کے بنائے ہوئے کشتوں کی بجائے ویاگرہ کی طرف کیوں لپکتے ہیں؟؟؟ علاج کے لئے یورپ کی طرف کیوں بھاگتے ہیں؟؟؟ خلافت کے حامی ہونے کے باوجود الیکشن کیوں لڑتے ہیں؟؟؟ بھائی آپ تو تعویذ بھی اس کاغذ پر لکھنے پر مجبور ہو جو کفار کی ایجاد کردہ مشینوں پہ بنتا ہے۔ یورپ کا انکار کرنا ہے تو پھر مکمل انکار کرو مگر اس کے لئے آپکو دوبارہ غاروں کا رخ کرنا پڑے گا جہاں صرف ستر اور پردے کے مسائل ہی ڈسکس ہورہے ہوں گے۔
سعیدابراہیم
جواب بعون الوہاب: (جواب اللہ تعالی کے تعاون و مدد سے)
سعید ابراہیم صاحب کو بہت زیادہ مغالطے لگے ہیں۔ جنت اور جہنم برحق ہے اور اس کے لیے ایمان اور عمل صالح شرط ہے۔دنیا میں کوئی کتنا بھی کامیاب ہو جائے ۔ اس کا فیصلہ اس کی ایجادات پر نہیں بلکہ اس کے ایمان اور عمل صالح پرہی ہوگا۔ میں سعید ابراہیم صاحب اور ان جیسے اوروں سے پوچھتا ہوں۔ کہ پہلے تو سب مولویوں کو ایک کھاتے میں نہ ڈالا کریں۔ کیا کبھی آپ نے کسی انگریز کے برے فعل کو دیکھ کر مغرب کی حمایت یا مغرب کو چھوڑا ہے۔ مغرب میں تو ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی بیوی کا ایکسچینج کر لیتے ہیں۔اپنی ماؤں بہنوں سے بدکاری کرتے ہیں ۔۔۔(معاذ اللہ) اور اس کے علاوہ بہت کچھ ۔۔۔۔
بات کا مقصد یہ ہے کہ کچھ لوگوں کی برے ہو جانے سے ساری کمیونیٹی کو بدنام نہ کریں۔ آپ مولویوں کو پڑھتے ہیں ۔۔اس لیے ایسا ہے۔ اگر آپ اسلام کا مطالعہ کریں تو ان شاءاللہ یہ اعتراضات دور ہو جائیں گے۔ اب میں اپنے اصل جواب کی طرف آتا ہوں۔ آپ نے اعتراض کیا کہ مولوی ان کفار کو جہنم بھی بھیج رہے ہیں اور خود ان کی بنائی ہوئی چیزیں بھی استعمال کرتے ہیں۔ تو سنیں ۔۔۔۔ پہلے بھی میں نے بتا دیا کہ یہاں اس دنیا سے جا کر آخرت میں پاس ہونے کی شرط اللہ نے ایمان اور عمل صالح رکھی ہے۔ سائنسی ایجادات کو پا لینا شرط نہیں ہے۔ ہاں ان کا بدلہ اللہ ضرور دیگا وہ اس شکل میں کہ ان کے اچھے کاموں کی وجہ سے ان پر عذاب ہلکا ہوگا۔ اب میں اس بات کو ایک مثال سے واضح کرتا ہوں جو کہ میری عادت ہے۔
مثال کے طور پر ایم اے کا امتحان ہے ۔۔۔ اور پرچہ انگلش کا ہے۔ اور لڑکا ایم اے انگلش کر رہا ہے یا ایم اے انگلش ڈیپارٹمنٹ میں پورے ایک مہینے بعد انگلش کے امتحانات ہونگے۔اب اس سٹوڈنٹ کو سلیبس دے دیا گیا ہے کہ انگلش پرچے کی تیاری کرو۔ اور اس میں سے امتحان ہوگا اور اسی میں سے تمہاری ڈگری جاری کی جائے گی۔ اب لڑکا ہر دن فزکس کھول کر بیٹھ جاتا ہے کیونکہ اس کو ان چیزوں کا شوق ہے۔اور ہر دن بازار سے کھلونے اور دیگر چیزیں لا کر تجربے کرتا ہے۔ اور ایک دن کوئی چیز بنا لیتا ہے۔ جو کہ یونیورسٹی کے سب سٹوڈنٹس کو پسند آتی ہے۔ لیکن یہ لڑکا انگلش کے امتحان میں بالکل نہیں آتا ۔۔ ان دنوں میں بھی اس کو اپنی فزکس کی فکر پڑی ہوتی ہے۔ یونیورسٹی والے فزکس کے خلاف نہیں ہوتے وہ تو خوش ہوتے ہیں کہ چلو سٹوڈنٹ نے کوئی کارنامہ کیا۔ لیکن وہ یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ہر چیز کا اپنا ایک وقت ہے اور شرائط ہیں ۔۔ تم انگلش امتحان کی تیاری کرو ۔۔ اس میں پاس ہونا لازمی ہے ۔۔ اس کے بعد تم جو کرنا چاہو کرو۔ لیکن یہ لڑکا امتحان کے دنوں میں غیر حاضر رہتا ہے۔۔ پھر جب نتیجے کا دن آتا ہے تو یہ یونیورسٹی والوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ مجھے میری ایم اے کی ڈگری دو۔
سب جوابا٘ کہتے ہیں بھئ کونسی ڈگری؟؟؟ تم نے کیا کیا ہے۔ تم نے تو امتحان بھی نہیں دیا۔ اب یہ سب پر اعتراض کرتا ہے کہ میرے بنائے ہوئے پروجیکٹ کو سب استعمال تو کر رہے ہیں لیکن مجھے میری ڈگری نہیں دے رہے۔ ۔۔۔ تو جس طرح اس لڑکے کو ہر کوئی بے وقوف کہے گا۔
یہی حال کفار کا بھی ہے۔ اللہ نے ہم سے جو چیز مانگی ہے وہ ہے اللہ اور یوم آخرت پر ایمان ، اس کے فرشتوں ، کتابوں ، مرنے ، اٹھنے، جنت جہنم،پر ایمان اور پھر نیک اعمال کو انجام دینا، یہ سب ہمارا سلیبس ہیں( ہمارا نصاب ہے) اور اس کی ہمیں تیاری کرنی ہے۔ اب جو اس سٹودنٹ کی طرح ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا رہے گا۔ اور کامیابی کی توقع رکھتا ہے۔ اس کو ہم بے وقوف اور جاہل ہی کہہ سکتے ہیں۔
اسلام نے کہیں بھی ایجادات اور سائنسی علوم سے نہیں روکا۔ لیکن بنیادی کام ایمان اور عمل صالح ہے اس کے بعد ہی ہمیں اس دنیا کی کامیابی کی ڈگری مل سکتی ہے ورنہ چیخنا چلانا فضول ہے۔ امید ہے بات سمجھ آ گئی ہوگی۔ اب جس طرح سعید ابراہیم نے اعتراض کیا اسی طرح میری مثال میں بھی یونیورسٹی کے باقی لڑکے بھی بار بار اس سٹوڈنٹ کو کہتے رہے کہ یار انگلش امتحان قریب ہے کچھ تیاری کرلو۔ ورنہ ڈگری نہیں ملے گی۔ اب یہ لڑکا ان کو یہی کہتا رہا کہ نہیں اگر تم فزکس کے خلاف ہو تو پھر یہ انگلش کی کتاب بھی فزکس کے لاز اور مشینوں پر بنی ہے۔ اور تم جو یہ فلاں فلاں چیز استعمال کر رہے ہو۔ یہ بھی فزکس کی بدولت بنی ہے۔ وہ دوست اس کو یہی کہیں گے کہ بھائی ہم فزکس کے خلاف کب ہیں ۔۔ ہم نے تو تمہیں فزکس سے نہیں روکا۔ تم نے انگلش امتحان کی تیاری کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے ۔۔ ہم اس چیز پر تمہیں خبردار کر رہے ہیں کہ فیل ہو جاؤ گے اور یہ فزکس تمہارے کچھ کام نہیں آئے گی۔ کیونکہ تم ایک انگلش ڈیپارٹمنٹ کے سٹوڈنٹ ہو۔ اسی لیے اس کو ساتھ لے کر چلو۔ورنہ ڈگری نہیں ملے گی !!!
بالکل میرے بھائیو ۔۔ ہم بھی یہی کہتے ہیں سائنسی ایجادات کو کسی نے حرام نہیں کیا ۔۔ لیکن اپنا اصل مقصد نہ بھلاؤ۔ اللہ نے یہاں ہمیں دین اسلام کی خدمت اور اس پر ایمان لانے کے امتحان کے لیے بھیجا ہے۔ باقی کام ضرور کرو۔ لیکن اپنا مقصد نہ بھلاؤ۔ ورنہ فیل ہو جاؤگے !!!!!!!!!!!!!! اور کوئی ڈگری نہیں ملے گی کیونکہ اللہ نے جو سلیبس بنایا ہے اس میں ایمانیات، عبادات ، معاملات غرض سارا اسلام ہے۔ اس امتحان کی تیاری کرو۔ اس سٹوڈنٹ کی طرح ضد نہ پکڑو۔ ورنہ کچھ نہیں ملے گا۔ وما علینا الا البلاغ
تحریر: شیر سلفی